(Translated by https://www.hiragana.jp/)
دکن کا مرثیہ... تاریخ اور خصوصیات
 
  • بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعۂ کربلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہر مذہب، عقیدے اور مسلک کے لوگوں کو دلی اور ذہنی طور پر بے حد متاثر کیا۔ انسانی زندگی سے وابستہ دائمی قدریں بھی اسی واقعے کے زیر اثر رہی ہیں اور شعری دنیا کو بھی اس المیے نے ایک نیا افق دیا۔ صدیوں سے یہ المیہ ہر عہد کے شعراء سے خراج عقیدت وصول کرتا رہا ہے۔ 

کربلا اور اس سے وابستہ افراد اور شہادت سے متعلق جزئیات نے بلیغ علامات اور زندہ استعاروں کی صورت اختیار کرکے ہمارے شعری اسلوب میں جس طرح معانی کی تہہ در تہہ کیفیات، گہرائی اور گداز پیدا کیا ہے، اس نے شعریات میں اب ایک جداگانہ باب کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ 

یہ مرثیہ برصغیر پاک و ہند کی پیداوار ہے جس کے ارتقاء اور ترقی و ترویج میں ہر خطے کا اپنا ایک حصہ ہے۔ دکن میں بھی باقی علاقوں کی طرح مرثیہ پروان چڑھا اور پھر یہاں مسلمانوں کی پہچان کے ایک خاص مقام تک پہنچ گیا۔ دکن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ شاعری اور نثر نگاری کی طرح مرثیوں کی ابتدا ءبھی یہاں سے ہوتی ہے۔ گولکنڈہ اوربیجاپور کی حکومتوں کو اس کاامتیاز حاصل ہے۔چونکہ ان کے ایران کی صفوی حکومت سے دوستانہ تعلقات اور مراسم تھے، اس لئے دکن میں مجلس عزاء اور مرثیوں کا خاص رو اج تھا۔

مجالس عزاء کی ابتداء میں محتشم کاشی کے بند پڑھے جاتے تھے، مگر چونکہ اردو زبان عام طور پر رائج تھی۔ شاہی دربار اور سلطان محل سرائوں، امیروں کے قصر اور ان کے ایوانوں، درویشوں اور اہل تصوف کی خانقاہوں ، شعراء و ادبا کی محافل میں یہی زبان مروج تھی۔ اسی میں اظہار خیال ہوتا ، اس لئے مرثیوں کا اردو یا دکنی زبان میں لکھا جانا ناگزیر تھا۔ 

چنانچہ ایک خاص گروہ مرثیہ گویوں کا پیدا ہوگیا اور پھر دکنی مرثیے ایسے مقبول ہوئے کہ مغلیہ لشکر کے سپاہیوں نے بھی انہیں یاد کرلیا اور ان کے ذریعے وہ شمالی عہد میں بھی پہنچے اور وہاں بھی اردو زبان میں مرثیے لکھے جانے لگے اور روز بروز انہیں ترقی ہوتی گئی، حتیٰ کہ انیس اور دبیر نے انہیں معراج کمال پر پہنچادیا۔ اگرچہ اس طرح اردو مرثیوں کو شمالی ہند یا لکھنو میں خاص ترقی ملی ،لیکن جو خصوصیت دکنی مرثیوں کو حاصل تھی، اسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ 

دکنی مرثیوں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک تو وہ مرثیے یا تفصیلی واقعات شہادت ہیں، جنہیں شعراء نے شہادت ناموں اور قصیدوں کی صورت میں قلم بند کیا ہے۔ دوسرے وہ مرثیے،جو مختصر ہیں۔ پہلا شہادت نامہ سن 909ہجری کا ہے جس کا مصنف اشرف ہے۔ یہ احمد نگر کا رہنے والا تھا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گولکنڈہ اور بیجاپور کی طرح احمد نگر کی نظام شاہی سلطنت میں بھی اردو یا دکنی کا رواج تھا۔ گولکنڈہ کے شاعر خواص کا شہادت نامہ بعنوان ’’قصہ حسینی‘‘ ملتا ہے جو 1050 ہجری میں تصنیف ہوا، بیجاپور کے شاعر سیوا کے شہادت نامے کا بھی پتا چلتا ہے۔ 

ولی ویلوری کا شہادت نامہ ’’روضۃ الشہداء‘‘ بھی مشہور ہے، عطا نے ’’دروازہ مجلس‘‘ شیدانے ’’روضۃ الطہار‘‘ اور باقر آگاہ نے ’’ریاض الجنان‘‘ کے نام سے واقعات شہادت قلم بند کئے۔ غرض اس طرح بارہویں صدی ہجری تک کئی شہادت نامے لکھے گئے ۔ بیجاپور کے ملک الشعراء ملا نصرتی کا نہایت طویل قصیدہ ہے جس میں بیجاپور کے محرم اور وہاں کے عاشور خانہ کا تفصیلی احوال لکھا گیا ہے۔ 

ہمیں معلوم ہے کہ دکنی شاعری فارسی کو نمونہ قرار دے کر شروع ہوئی تھی، اس لئے دکنی منظوم کتابیں فارسی کتابوں کا ترجمہ ہیں۔ اس ضمن میں شہادت نامے بھی شامل ہیں۔ دکن میں جو شہادت نامے قلم بند ہوئے ،ان میں سے بعض تو دکنی شعراء کے اپنے خیالات اور افکار کا نتیجہ ہیں اور بعض فارسی شہادت ناموں کا ترجمہ ہیں، جو اکثر و بیشترایام عزاءکے دس دنوں کے دوران پڑھے جاتے تھے۔ شہادت ناموں کے علاوہ دوسرے دکنی مرثیے وہ ہیں، جنہیں اکثر دکنی شعراء نے موزوں کیا ہے۔ 

دکنی شعراء دوسری اصناف سخن کے ساتھ مرثیے بھی عموماً قلم بند کرتے تھے۔ ان کے علاوہ کئی شعراء ایسے تھے کہ صرف مرثیہ گوئی ہی ان کا مشغلہ زندگی بنا ہوا تھا، اس قسم کے جو مرثیے دستیاب ہوئے، ان میں قطب شاہی دور کے شعراء وجہی، خواصی لطیف وغیرہ کے علاوہ خود سلطان محمد قلی قطب شاہ ، سلطان محمد اور سلطان عبداللہ کے مرثیے ہیں۔ 

ان کے سوا جو شعراء صرف مرثیہ گوئی کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں، ان میں کاظم، مرزا، شاہی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ اسی طرح بیجاپور میں بھی خاص مرثیہ گو شعراء موجود تھے۔ 

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ بیجاپور اور گولکنڈہ میں مرزا تخلص کے دو شاعر گزرے ہیں، جن کا زمانہ تقریباً ایک ہے ،یہ دونوں مرثیہ گوئی میں خاص شہرت کے مالک تھے۔ دکنی شعراء کے یہ مرثیے بھی دو قسم میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔ ایک تو وہ طویل مرثیے ہیں جن میں سے بعض کو خاص عنوانات کے تحت لکھا گیاہے اور بعض بلاعنوان کے لکھے گئے ہیں۔ انہیں نوحوں اور سلام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ 

بعض شعراء نے تو غزلوں کی طرح مرثیوں کو ردیف اور ترتیب دیا تھا، چنانچہ ہاشم علی برہان پوری کے یہ مرثیے ’’دیوان حسینی‘‘ سے موسوم ہیں۔ اس کا ایک مخطوطہ اڈنبرا یونیورسٹی کے کتب خانے میں بھی موجود ہے۔ اس میں شامل مرثیے عنوان کے تحت لکھے گئے ہیں ،ان میں سےبعض کے عنوان یہ ہیں۔ قصہ امام حسینؓ، قصہ حضرت قاسم، قصہ حر شہید، مرثیہ امام حسینؓ، مرثیہ حضرت علی اکبر، مرثیہ بی بی شہربانو، دلہن کا ماتم، قاسم کی سواری، مسلم کی شہادت وغیرہ۔ 

اسی قسم کے طویل مرثیوں میں تفصیلی واقعات کا اظہار ہوا کرتا تھا ،مثلاً امام حسینؓ کا جنگ کےلیے تیار ہونا، میدان جنگ میں تشریف لے جانا، دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمانا۔ حضرت قاسم کی شجاعت اور ان کی شادی، حضرت حر کی شہادت، ان کی فوج کی تعداد، ان کا مخالفین اسلام سے گفتگو کرنا، امام حسینؓ کے پاس بحیثیت مہمان آنا، پھر ان کا جنگ کیلئے اجازت طلب کرنا وغیرہ۔ 

اس کے علاوہ زمانہ ما بعد میں لکھنو اسکول کے مرثیے جس طرح واقعہ نگاری اور منظر نگاری کے لحاظ سے قابل ستائش قرار دیئے گئے ، اس طرح دکنی مرثیوں میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں ،مثلاً رات کا سماں، صبح کا منظر،گرمی کا موسم، سفر کی حالت، لڑائی کا میدان، بے بسی و تنہائی، جدائی و مفارقت، بیوہ کی مصیبت اور اس کا رنج و الم، بہن کا بھائی کی موت پر آنسو بہانا وغیرہ۔ ان واقعات یا منظر کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ ما بعد میں لکھنو کے شعراء نے اس قسم کی منظر نگاری میں جو کمال دکھایا ہے ،وہ دکنی شعراء کے مرثیے کو دیکھ کر ہی پیدا ہوا تھا۔ 

دکنی مرثیے اپنی خصوصیات کے لحاظ سے بے حد اہم اور منفرد ہیں۔ ان مرثیوں سے صاف طور پر مرثیہ پن ظاہر ہوتا ہے۔ دکنی مرثیوں میں جذبات نگاری کے جوہر موجود ہیں۔ انسانی جذبات کی تفصیل واضح طور پر کی گئی ہے، ان مرثیوں میں سیرت نگاری کا حق بھی ادا ہوا ہے۔ ان میں نہ صرف بیانی سیرت نگاری ہے، بلکہ مکالمے کے ذریعے بھی سیرت نگاری کی گئی ہے۔ ان مرثیوں میں مقامی فطرت کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

مقامی ماحول کا اثر یہاں کے مرثیوں میں بے حد نمایاں ہے، ان میں ایک ادبی شان پائی جاتی ہے، بلحاظ ادب ان کو خاص درجہ دیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ان مرثیوں سے مرثیہ گویوں کے متعلق بعض تاریخی حالات،ان کے نام، ان کے وطن اور ان کے ہم عصر مرثیہ گویوں کی صراحت معلوم ہوتی ہے۔ دکنی مرثیے صرف قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں ہی نہیں لکھے گئے ، بلکہ ان سلطنتوں کی تباہی کے بعد بھی لکھے گئے ہیں۔ 

ایسے کئی مرثیہ گو شعراء مشہور ہیں جو مغلیہ دور حکومت میں مرثیہ گوئی کرتے تھے ان میں ذوقی، احمد، اشرف، امامی، رضی، روحی، ندیم، قادر وغیرہ خصوصیت سے قابل تذکرہ ہیں، ان کے مرثیوں کا اچھا خاصا ذخیرہ دستیاب ہوچکا ہے اور بعض اصحاب نے انہیں ترتیب بھی دیا ہے۔ دکنی مرثیے مختلف نہج پر ملتے ہیں، مگر اکثر مربع بندوں کی شکل میں لکھے گئے ہیں۔ 

ہر مرثیے کے پہلے بند کے چار مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں اور ہر بند کا چوتھا مصرعہ اسی ردیف اور قافیے میں لکھا جاتا ہے جو ابتدائی بند کا ہوتا ہے۔ بعض مرثیے غزل نما ہیں۔ مختصر یہ کہ دکنی مرثیے نہ صرف سوزوگداز اور پراثر ہونے کی حیثیت سے بلکہ بلحاظ واقعہ نگاری، اسلوب بیاں، طرز ادا اور بلحاظ لطف زبان بھی قابل تذکرہ ہیں۔