جعلی خبریں کس طرح انسانی معاشروں میں فتنہ انگیزی کا سبب بنتی ہیں، ان کی ایک مثال برطانیہ میں پچھلے دنوں رونما ہونے والے بدترین فسادات ہیں۔ 29؍جولائی کو شمالی انگلینڈ کے علاقے سائوتھ پورٹ میں ایک تقریب کے دوران ایک سترہ سالہ نوجوان نے چاقو کے وار سے تین کم سن بچیوں کو قتل جبکہ دس افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا لیکن اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر غلط رُخ دیتے ہوئے ایک مسلمان پناہ گزین کی دہشت گردی کا رنگ دیدیا گیا ’’چینل تھری نائو‘‘ نامی ایک ویب سائٹ نے غلط خبر کو مزید ہوا دیتے ہوئے حملہ آور کو ایک فرضی مسلمان نام بھی دے دیا اور خبر میں لکھا کہ وہ شخص گزشتہ سال ہی کشتی کے ذریعے برطانیہ آیا تھا اور برطانوی انٹلیجنس ایجنسی کی واچ لسٹ پر تھا۔ یہ خبر برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہروں اوراشتعال انگیزی کے واقعات کی وجہ بن گئی جن میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، مساجد پر حملوں اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے والے واقعات کے پیش نظر وزیراعظم کیئر اسٹار مرنے ٹیلیویژن پر خطاب کرکے پناہ گزینوں کے ہوٹل پر حملے کی مذمت کی، مساجد کی حفاظت کیلئے خصوصی اقدامات کئے جبکہ ہنگامہ آرائی میں ملوث ملزمان کو سزائیں دینے کیلئے 24گھنٹے عدالتیں کھلی رکھی گئیں اور واضح کیا گیا کہ غلط معلومات پھیلانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ برطانیہ میں رونما ہونے والی مذکورہ بدامنی کو تیرہ سال کے بدترین فسادات سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہ برطانیہ کا واقعہ ہے جہاں کئی برس پہلے بھی فسادی کیفیت پر قابو پاکر، عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رکھ کر،انتظامی حکمت عملی بروئے کار لاکر قانونی تقاضے پورے اور معمولات زندگی بحال کر دیئے گئےتھے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کے لئے ان واقعات میں سیکھنے کے لئے کئی اسباق مضمر ہیں۔ جبکہ من حیث القوم ہمیں یہ پہلو مدنظر رکھنا چاہئے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے تنہا شخص کی جھوٹی خبر کس طرح بدترین فتنوںاور نقصانات کا سبب بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ خبر کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کے حوالے سے تحقیقات کے تانے بانے ایک پاکستانی سے ملتے ہیں جس کا سراغ لاہور پولیس نے مبینہ طور پر چند روز قتل آئی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تصویر کو استعمال کرتے ہوئے لگایا تھا۔ برطانیہ میں کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی اور ملزم کے ایف آئی اے کے سامنے دیئے گئے بیان سے بھی انکشاف ہوا کہ ملزم نے یہ کارروائی تنہا کی تھی۔ ملزم نے نہ صرف برطانوی عوام کو جھوٹی خبریں فراہم کیں بلکہ برطانوی نشریاتی ادارے کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ ویب سائٹ ’’چینل تھری نائو‘‘ کے کام کیلئے مختلف ملکوں کے لوگوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی تھی اور یہ بھی کہ جعلی خبریں ایک اور ٹیم ممبر پھیلا رہا ہے، وہ نہیں۔ تفتیش کاروں کو بتائی گئی تفصیلات کے بموجب سنسنی خیز خبروں کے پلیٹ فارمز سے ملزم کو ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے ملتے ہیں۔ ملزم کی اس حرکت سے پاکستان اور بیرون ملک، بالخصوص برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا، کاش اسے اس کا ادراک ہوتا۔ سوشل میڈیا معلومات کی ترسیل اور اظہار رائے کا ایسا ذریعہ ہے جس کے استعمال میں اظہار رائے کی حدوں اور مثبت و منفی پہلوئوں کا فرق مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ بعض عناصر سوشل میڈیا کے استعمال میں اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے یا جان بوجھ کر اس میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ایسے عناصر پر سب ہی کو نظر رکھنی چاہئے جو اداروں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے اور فوج اور عوام کے درمیان اعتماد و محبت کے رشتے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بطور پاکستانی ہمیں اپنے ملک کی سالمیت و بقا کے تقاضوں کو بہرطور ملحوظ رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا ہے۔