پلندری
پلندری ( انگريزی: Pallandri ) پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کا ایک شہر ہے جو ضلع سدھنوتی کا مر کز مقام، راولپنڈی سے 93کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے سطح سمندر سے ساڈھے چار ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک نہایت پر فضا مقامات ہے۔ موسمی اعتبار سے یہ آزادکشمیر کا سب سے بہترین مقام ہے کیونکہ یہاں نہ تو بہت بلند مقامات کی طرک شدید سردی ہوتی ہے اور نہ ہی زیریں علاقوں کی طرح گرمیوں میں شدید گرمی، یہاں کا موسم سال کا بیشتر حصہ معتدل رہتا ہے پلندری کی وادی تقریباً چار مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں کے لیے بنیادی سہولیات ریسٹ ہاوس، ہوٹل، ہسپتال وغیرہ موجود ہیں اور دیگر ضروریات بھی دستیاب ہیں شہر کے مشرق میں تاریخی مقام جو رانی بلاس پوری کی باولی کے نام سے مشہور ہیں، فن تعمیر کا شاہکار ہیں محکمہ سیاحت کی عدم توجمی کے باوجود قدیم زمانے کی یہ تاریخی عمارت آج بھی قابل دید ہے پلندری راولپنڈیاسلام آباد سے آزادکشمیر کا قریب ترین مقام ہونے کی وجہ سے سیاحوں ک لیے ایک موزوں مقام ہے۔
شہر | |
سرکاری نام | |
ملک | پاکستان |
ریاست | آزاد کشمیر |
ضلع | ضلع سدھنوتی |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+05:00) |
اہم سڑکیں
ترمیمآزاد پتن پلندری ہجیرہ روڈ، یہ ضلع پونچھ کی سب سے قدیم سڑک ہے۔ یہ سب سے پہلے 1920میں نکالی گئی۔ راولپنڈی اور گوجر خان سے پونچھ کے درمیان میں پیدل اور اونٹوں پر سفراسی راستے پر کیا جاتا تھا اور سامان پونچھ تک پہنچایا جاتا تھا۔ جنگ آزادی کے دوران میں اس سڑک کو بہت اہمیت حاصل رہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اسی سڑک کے ذریعے تراڑ کھل تک گئے۔ آزاد پتن سے پلندری کا فاصلہ 24کلو میٹر، پلندری سے تراڑ کھل 30کلو میٹر، تراڑ کھل سے ہجیرہ 19کلو میٹر ہے۔
آزاد پتن منگ روڈ
ترمیمیہ سڑک 1928میں تعمیر ہوئی اور ایک عرصہ تک راولا کوٹ سے راولپنڈی سفر کا واحد ذریعہ رہی۔ یہ سڑک آزاد پتن سے منگ، نکہ بازار، تھوراڑ، کس بازار اور ٹوپہ سے ہوتی ہوئی راولا کوٹ جاتی ہے۔ آزاد پتن سے منگ 24کلو میٹر، جبکہ منگ سے نکہ بازار 5کلو میٹر ہے۔
پلندری کوٹلی روڈ
ترمیمیہ بھی ضلع پونچھ کی قدیم ترین سڑکوں میں سے ایک ہے جہاں آزادی کے دوران یہ سڑک سدھنوتی اور کوٹلی کے درمیان میں رابطے کا بڑا ذریعہ تھی مجاہدین نے اسی سڑک پر ڈوگرہ فوج کا پیچھا کیا اور اسی سڑک پر اپنا دفاع قائم کیا، پلندری سے کوٹلی کا فاصلہ 45کلو میٹر ہے۔ اس سڑک پر ٹاہلیان، پنجیڑا اور سرساوہ اہم مقام ہیں۔
پلندری چھ چھن(خان آباد) آزاد پتن روڈ
ترمیمپلندری سے ایک سڑک براستہ چھ چھن آزاد پتن جاتی ہے، اس کی ایک شاخ براستہ ہولاڑ راولپنڈی جاتی ہے پلندری سے چھ چھن کا فاصلہ تیرہ کلومیٹر، چھ چھن سے آزاد پتن پندرہ کلومیٹر ہے چھ چھن(خان آباد) سے ہولاڑ بارہ کلومیٹر ہے۔
پلندری آزاد پتن کلیاری روڈ
ترمیمآزاد پتن سے براستہ پتن شیر خان، کلیاری، ڈھلکوٹ مظفر آباد نئی سڑک تعمیر کی گئی ہے۔ اس کے ذریعے پلندری سے مظفر آباد سفر آسان ہو گیا اس راستے سے پلندری سے مظفر آباد 130کلو میٹر ہے۔
پلندری ٹنگی گلہ روڈ
ترمیمپلندری سے براستہ بیتراں ٹنگی گلہ سڑک تعمیر کی گئی ہے پلندری ٹنگی گلہ تک فاصلہ 22کلو میٹر ہے۔
سیاحت مقامات
ترمیمپلندری راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ سے مشرق میں دریائے جہلم کے کنارے واقع تین ہزار سے سات ہزار فٹ پہاڑوں پر مشتمل خوب صورت علاقہ سے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں چھوٹی چھوٹی وادیاں اس حسن کو دوبالا کرتی ہیں سیاحتی اعتبار سے کئی خوب صورت مقامات ہیں یہ علاقہ مری کے بالمقابل جنوب مشرق میں واقع ہے اس علاقے کے چند اہم مقامات جوسیاحوں کے لیے پر کشش ہیں اور جہاں کچھ سہولتیں موجود ہیں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
پلندری
ترمیمپلندری راولپنڈی سے 93کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے سطح سمندر سے ساڑھے چار ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک نہایت پر فضا مقامات ہے۔ موسمی اعتبار سے یہ آزادکشمیر کا سب سے بہترین مقام ہے کیونکہ یہاں نہ تو بہت بلند مقامات کی طرک شدید سردی ہوتی ہے اور نہ ہی زیریں علاقوں کی طرح گرمیوں میں شدید گرمی، یہاں کا موسم سال کا بیشتر حصہ معتدل رہتا ہے پلندری کی وادی تقریباً چار مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں کے لیے بنیادی سہولیات ریسٹ ہاوس، ہوٹل، ہسپتال وغیرہ موجود ہیں اور دیگر ضروریات بھی دستیاب ہیں شہر کے مشرق میں تاریخی مقام جو رانی بلاس پوری کی باولی کے نام سے مشہور ہیں، فن تعمیر کا شاہکار ہیں محکمہ سیاحت کی عدم توجمی کے باوجود قدیم زمانے کی یہ تاریخی عمارت آج بھی قابل دید ہے پلندری راولپنڈی اسلام آباد سے آزادکشمیر کا قریب ترین مقام ہونے کی وجہ سے سیاحوں ک لیے ایک موزوں مقام ہے۔
بارل
ترمیمپلندری آزاد کشمير سے بارہ ميل جنوب کی طرف دو بڑے نالوں کی درميان اونچی گھاٹی پر ايک عمر رسيدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے کی مسلسل بے اعتنائيوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ يہ عمارت تقريبا” پونے دو سو سال قبل تعمیر ہوئی- تیرھویں صدی میں کشمير پر مسلم سلاطين کی حکومت کا آغاز ہوا اور سو برس تک مغل حاکم رہے۔ ستر برس تک پٹھان اور 1819ء سے 1845 تک سکھوں کا عمل دخل رہا جبکہ 1846 سے 1947 تک ڈوگرہ خاندان نے اس سر زمين پر اپنے ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھا۔ ان حکومتوں کے دوران يہاں کے کئی علاقے آزاد رہے جن میں علاقہ پونچھ (سابق) سر فہرست ہے- آزاد قباءل کی زندگی پرسکون، خوش حال اور فارغ البال تھی- یہ لوگ اپنی طرز زندگی کا ايک عميق اور منفرد فلسفہ رکھتے تھے۔ بيرونی تسلط کو کبھی قبول نہ کرتے تھے۔ جب سری سکھ حکمران نے یہ چاہا کہ پوری رياست پر ان کا قبضہ رہے تو انھوں نے يہاں کے آزاد حکمرانوں کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے حملہ کر ديا مگر آزاد قبائل نے متحد ہو کر کفر کو پاک سر زمين سے بھاگنے پر مجبور کر ديا ۔ يہ قلعہ جو بارل کے وسط ميں واقع ہے۔ ايک سو برس تک ڈوگراہ بربريت کا مرکذ رہا ہے۔ اس کے مشرق ميں کوہالہ، مغرب ميں اٹکورہ، شمال ميں پلندری اور جنوب ميں سہنسہ و اقع ہيں۔ اس کا سنگ بنياد 1837 ميں مہاراجا گلاب سنگھ کے دور ميں رکھا گيا۔ اس کی تعمير ايک آنہ يوميہ کی مزدوری پر عمل ميں آئی۔ اس کے پتھر سہر نالہ (جو ڈيڑھ ميل کی دوری پ رہے) سے لائے گئے۔ عوام علاقہ عمارت کی جائے وقوعہ سے مذکورہ نالے تک ايک لمبی قطار بناتے اور پتھروں کو حرکت ديتے رہتے۔ يہ سلسلہ صبح تا شام جاری رہتا حتی کہ عمارت ميں صرف ہونے والے تمام پتھر اسی طریقہ سے لائے گئے۔ علاوازيں سرخی اور چونا پنيالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے) سے لايا گيا۔ ڈوگرہ سا مراج نے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے اور ہميشہ کے لیے اپنا مطيع و فرماں بردار بنانے کی غرض اس قدر مظالم ڈھائے کے قلعہ کی تعمير کی ابتدا ميں ايک مقامی مسلمان کو قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے والے ستون کے نيچے زندہ دفن کر ديا گيا تاکہ لوگ آزادی کی سی انمول نعمت کو ذہن میں نہ لا سکیں قلعہ کی تعمير ميں جو پتھر استعمال ہوئے ہیں وہ مختلف سائيز کے ہيں جن ميں سب سے چھوٹا پتھر “4”7 اور سب سے بڑا “12”7 کا ہے البتہ ايک پتھر کی لمبائ 96 انچ ہے يہ پتھر بڑے دروازس سے داخل ہوتے ہوئے بائيں طرف کے دروازے ميں نصب ہے قلعے کی اندرونی ديواريں 22 انچ چوڑی ہيں جبکہ باہر کی ديوار 38 انچ چوڑی ہے جس ميں چاروں بندوں کوں اور ہلکی توپوں سے فائير کرنے کی جگہيں موجود ہيں۔ قلعے کی تکميل اس کی تاريخ آغاز سے لے کر مسلسل کام کے باوجود 1839 ميں ہوئی۔ ڈوگرا سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص و عام بچوں کی ايک تربيت گاہ ميں بدل گئی۔ 1947 سے 1957 تک اس قلعے سے مڈل اسکول کا کام ليا گيا۔ کيونکہ اسکول کيلئے کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔ يہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر سرگر يہ کناں ہے دو ہال اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط ميں ايک کنواں جو سنتے ہيں کہ بہت گہرا ہوا کرتا تھا، اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔ عصر حاضر ميں اس قلعے کے اندر جس کی عمارت تين کنال کے رقبے ميں پھيلی ہوئی ہے۔ شہتوت، ہاڑی، جنگلی اناروں کے علاوہ بے شمار قسم کی خود رو جڑی بوٹياں اگی ہوئی ہيں۔ کچھ ديواريں حالت رکوع ميں ہيں اور کچھ گريباں چاک ہيں۔ چھت گويا تھی ہی نہيں۔ اے کاش کوئی اس بے چارگی و کسمپرسی پر چارہ گری کا بيڑا اٹھاتا۔ قلعہ بارل آج بھی منتظر ہے کسی ايسی آنکھ کا جس کے دريچے ماضی کی عظمت رفتہ کی ديوار پر کھلتے ہيں۔
منگ
ترمیم1832ء کی جدوجہد کا مرکز اور تاریخی قصبہ ہے وہ تاریخی درخت موجود ہے جس سے لٹکا کر مجاہدوں کی کھالیں اتاری گیں۔
ناگیشر
ترمیمپلندری سے مشرق کی جانب تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر 7000فٹ کی بلندی پر ایک خوب صورت مقام ہے۔ پلندری تراڈکھل روڈ سے ایک کچی سٹرک یہاں تک جاتی ہے۔ یہ سدہنوتی کا بلند ترین مقام ہے اگر یہاں مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں تو یہ ایک خوب صورت تفریحی مقام بن سکتا ہے۔
جونجال ہل
ترمیمپلندری سے تقریباً18 کلومیٹر کے فاصلے پر تراڈکھل روڈ پر ایک خوب صورت مقام ہے 1947ء میں یہاں کچھ عرصہ کے لیے آزاد حکومت کے دفاتر بھی کام کرتے رہے۔ یخ بستہ چشموں اور بیاڈ کے درختوں کے درمیان یہ ایک خوب صورت مقام ہے۔ اس کا ذکر قدرت اللہ شہاب نے شہاب نا مے میں بھی کیاہے۔
دھاردھر چھ (ٹاور)
ترمیمپلندری سے تقریباً 7 کلومیٹر دور سب سے خوبصورت جگہ ہے آپ راولپنڈی، کوٹلی اور پلندری کے شہروں کے قریب واقع ہے
تاریخی مندر
ترمیماسلام پورہ- پلندری سے 6 کلومیٹر دور ایک بہت خوبصورت گاؤں ہے اس گاؤں میں مندر ہے جس میں کئی صدیوں پہلے ہندوؤں کی تعمیر کی گئی تھی-
تعلیم و درجہ
ترمیمتعلیم میں پلندری یہاں خواندگی کی شرح کم و بیش 79 فیصد ہے ۔
آزاد کشمیر کا واحد کیڈٹ کالج پلندری شہر سے تقریباً 2 کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹلی روڈ پر واقع ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر سدہنوتی کے عمائدین کا ایک وفد خانصاب کرنل خان محمد خان کی سرکردگی میں ہندوستان میں انگریز افواج کے کمانڈرانچیف، فیلڈ مارشل آکنیلک سے ملا اور ریاست پونچھ کے فوجیوں کی خدمات اوراس حوالے سے حکومت ہند کی طرف سے کیے گئے اعلانات کے حوالے سے بعض مطالبات میں ایک مطا لبہ یہ بھی تھا کہ سدہنوتی کے مرکزی مقام پلندری میں ملٹری کالج جہلم کی طرز پرایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے۔ لیکن یہ مطالبے آئینی جدوجہد کا شگار ہو گئے کرنل ایم نقی خان کی گزارش پر 1974میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو پلندری کے دورہ پر تشریف لائے تو ایک بار بھر یہ مطالبہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ انھوں نے ایک جلسہ عام میں پلندری کے مقام پر کیڈٹ کالج قائم کرنے کااعلان کیا۔ کیڈٹ کالج پلندری کے لیے ابھی ابتدائی امور ہی طے پائے تھے کہ ان کی حکومت ختم ہو گئی اور اس طرح یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس منصوبہ کو تعطل میں رکھنے کی کوشش کی لیکن اس وقت کرنل ایم نقی خان یہاں سے اسمبلی ممبر تھے انھوں نے دفتری امور کے حوالے سے سرگرمی سے کام کیا اور ادارے کے قیام کے سلسلے میں نہایت محنت سے کام کیا دفتری رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھرپور کوششیں کیں اور بالآخر 1990ء میں اس کالج کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم آزادکشمیر سردار سکندر حیات خان نے رکھا۔ 1992ء میں اس ادارے کی تعمیر کا آغاز ہوا اس دوران میں بھی کئی رکاوٹیں حائل رہیں اور کہیں 1998ء میں جاکر اہل سد ھنوتی کے نصف صدی کے مطالبے کی علمی شکل سامنے آئی اور یہاں تدریس کا باقاعدہ آغاز ہوا اس ادارے نے مختصر عرصے میں اپنا مقام پیدا کر لیا ہے۔ آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے لیے اس ادارہ میں نشستیں مختص ہیں اس ادارے نے اس علاقے کے طلبہ کو بھی معیاری تعلیم کا موقع مہیا کیا ہے یہ آزادکشمیر کا پہلا کیڈٹ کالج ہے۔
خان محمد خان گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج، پلندری
ترمیمآزادی کے وقت موجودہ آزادکشمیر میں ایک ہی کالج تھا جو میرپور میں قائم تھا آزادی کے بعد جلد ہی مظفرآباد اور راولاکوٹ میں کالج قائم کیے گئے ان تین کالجوں کے بعد 1962ء میں کوٹلی اور باغ اور پھر پلندری میں کالج قائم ہو 1974ء میں اسے ڈگری کا درجہ دیا گیااور پھر 2010ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دیا گیا اس نے علاقے میں تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیاآج اس ادارے سے فارغ ہونے والے طلبہ زندگی کے مختلف میدانون، افواج پاکستان، سیاست، معیشت، تعلیم، صحت، انتظامیہ اور دیگر شعبون میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، پلندری
ترمیم1980ء میں گرلز ہائی اسکول کو ترقی دے کر انٹر کالج قائم کیاگیااور اب ڈگری کالج قائم ہے۔ یہ تعلیمی اداردہ سدھنوتی میں خواتین کی تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہاہے۔