(Translated by https://www.hiragana.jp/)
حمود الرحمن - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا مندرجات کا رخ کریں

حمود الرحمن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حمود الرحمن
(بنگالی میں: হামুদুর রহমান ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

منصف اعظم پاکستان ساتویں
مدت منصب
18 نومبر 1968 – 31 اکتوبر 1975
صدر جنرل یحی خان
ذوالفقار علی بھٹو
فضل الہی چودھری
وزیر اعظم نور الامین
ذوالفقار علی بھٹو
جسٹس فضل اکبر
جسٹس محمد یعقوب علی
ایڈووکیٹ جنرل مشرقی پاکستان
مدت منصب
1953 – 1954
حکمران ایلزبتھ دوم
گورنر
وزیر اعظم محمد علی بوگرہ
ڈپٹی مئیر کولکتہ میونسپل کارپوریشن
مدت منصب
1943 – 1944
معلومات شخصیت
پیدائش 1 نومبر 1910ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چٹاگانگ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 اکتوبر 1975ء (65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش
برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ لندن
جامعہ کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ منصف ،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Awards نشان امتیاز (1976)
ہلال امتیاز (1974)

حمود الرحمن پاکستانی ماہر قانون اور چیف جسٹس تھے۔وہ 1910ء میں پٹنہ میں پیدا ہوئے۔

خاندان

[ترمیم]

اُن کے والد داؤد الرحمن متحدہ ہندوستان کے پہلے مسلمان سرجن تھے، وہ امیر کویت کے ذاتی معالج بھی رہے اور ہندوستان کے تمام بڑے نوابین کے سرجن بھی، ڈاکٹر داؤد الرحمن کا باقی خاندان قانون دان تھا، آدھی فیملی وکالت کے پیشے سے منسلک تھی اور آدھی جج،داؤد الرحمن کے بڑے صاحب زادے موحد الرحمن انگریز دور میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج رہے، حمود الرحمن نے کلکتہ سے تعلیم حاصل کی، لندن سے لا کی ڈگری لی اور وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا، مستقبل روشن تھا لیکن پاکستان بنا تو خاندان سمیت ڈھاکا شفٹ ہو گئے۔1971 میں ملک ٹوٹ گیا، جسٹس حمود الرحمن کا خاندان مشرقی پاکستان میں رہ گیا لیکن انھوں نے پاکستان چھوڑنے سے انکار کر دیا، یہ 1975 تک چیف جسٹس رہے، ریٹائر ہوئے، لاہور میں سکونت اختیار کی، پاکستان نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے اور 1981میں لاہور میں فوت ہو کر پاکستان کی مٹی میں دفن ہو گئے۔ ان کے ایک ہی صاحب زادے ہیں، اقبال حمید الرحمن، یہ بھی وکیل بنے، لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے، جنوری 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی بنے اور آخر میں 2016 میں اعلیٰ ترین عدلیہ سے مستعفی ہو کر اب چپ چاپ خاموش زندگی گزار رہے ہیں

کیرئیر

[ترمیم]

1937ء میں گریز ان لندن سے قانون کی ڈگری لی۔ 1938ء میں کلکتہ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ 1940ء میں کلکتہ کارپوریشن کے کونسلر مقرر ہوئے۔ 1943ء میں ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 1943ء تا 1947ء حکومت بنگال کے جونئیر وکیل رہے۔ 1948ء میں اثاثوں کی تقسیم کے سلسلے میں قائم کردہ ثالثی ٹرائی بیونل کے سامنے مشرقی پاکستان کا کیس پیش کیا۔ 1950ء تا 1953ء سٹیٹ بنک آف پاکستان ڈھاکہ کے قانونی مشیر رہے۔ 1953ء میں مشرقی پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل مقرر ہوئے۔ 1954ء تا 1960ء ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز رہے۔1958ء تا 1960ء ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ 1959ء تا 1960ء بین الاقوامی ثالثی عدالت ہیگ کے ارکان رہے۔ 1960ء میں سپریم کورٹ کے جج اور نومبر 1968ء میں چیف جسٹس مقرر ہوئے۔1968 میں جسٹس رابرٹ کارنیلس ریٹائر ہو رہے تھے، صدر ایوب خان نے ان سے اگلے چیف جسٹس کے بارے میں رائے لی تو جسٹس کارنیلس نے فوراً جواب دیا "پورے ملک میں حمود الرحمن سے بہتر کوئی امیدوار نہیں " اور یوں ایوب خان نے جسٹس کارنیلس کی سفارش پر جسٹس حمود الرحمن کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا، یہ متحدہ پاکستان کے آخری چیف جسٹس تھے۔ 1967ء میں قانونی اصلاحات کمیٹی کے چئیرمین بنائے گئے۔ یکم اکتوبر 1975ء کو ریٹائر ہوئے۔

عاصمہ جیلانی کیس

[ترمیم]

جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا لگا، عاصمہ جیلانی نے سپریم کورٹ میں مارشل لا کے خلاف رٹ دائر کردی، چیف جسٹس حمود الرحمن نے نہ صرف یحییٰ خان کے خلاف فیصلہ دے دیا بلکہ مارشل لا کو غیر آئینی بھی قرار دے دیا اور ملک میں فوری الیکشن کا حکم بھی جاری کر دیا یوں جنرل یحییٰ خان 1970 میں صاف اور شفاف الیکشن کرانے پر مجبور ہو گئے۔ یہ فیصلہ آج بھی سپریم کورٹ اور پاکستان کی آئینی تاریخ میں "عاصمہ جیلانی کیس" کے نام سے مشہور ہے اور ملک میں اس کے بعد جب بھی مارشل لا لگا یہ کیس تازہ ہوا اور سپریم کورٹ میں اس کی بنیاد پر رٹ فائل ہوئی۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

[ترمیم]

1972ء میں ذو الفقار علی بھٹو نے پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن بنایا تھا۔حکومت نے جب کمیشن کا اعلان کیا تو پورے ملک میں ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے حمود الرحمن کے نام پر اعتراض کیا ہو یہاں تک کہ وہ جنرل یحییٰ خان جن کے خلاف یہ کمیشن بنایا گیا تھا۔انھوں نے بھی انھیں قبول کر لیا تھا، چیف جسٹس حمودالرحمن نے طویل تحقیق اور تفتیش کے بعد 23 اکتوبر 1974 کو اپنی رپورٹ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جمع کرا دی، یہ رپورٹ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور شایدآخری بے لاگ جائزہ تھا۔یہ رپورٹ کئی دہائیوں تک خفیہ رہی۔اگست 2000 میں اچانک یہ رپورٹ بھارت میں "انڈیا ٹوڈے" نے شایع کر دی، پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا، جنرل پرویز مشرف اس وقت چیف ایگزیکٹو تھے۔ان پردباؤ آیا اور انھوں نے 2003ء میں رپورٹ پاکستان میں بھی اوپن کر دی تاہم اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ کر دیا گیا اور یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔



ماقبل از
فضل اکبر
منصف اعظم پاکستان مابعد از
محمد یعقوب علی