فلسفہیونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔
فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔
فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔
موجودات کے صحیح احوال کا بحد بشری عقل و فکر کے ذریعہ جننا فلسفہ ہے۔ فلسفہ کسی حقیقی نظریہ کو کہتے ہیں جس میں حقیقی زندگی کے تمام تصورات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ فلسفہ ایسے علم کو کہتے ہیں جس علم میں اشیاء کے موجودات خارجیہ و حقیقیہ سے انسانی قوت کے متعلق بحث کی جاتی ہے۔
فلسفہ کا موضوع - موجودات خارجیہ یعنی دنیا میں موجود چیزیں۔
منطق ایک قدیم سائنسی علم ہے جس میں دُرست نتائج (اِستنتاجاستدلال) اور دلائل کے اُصولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
علمیات فلسفہ کی ایک صنف ہے اور اسی کے مطالعے کو علمیات کہتے ہیں۔ اسکے نظریہ کو معلوماتشناسی یا شناختشناسی بھی کہا جاسکتا ہے اور علم معلومات بھی، مگر علمیات کا لفظ اس شعبہ علم کے مفہوم سے زیادہ قریب تر ہے۔ اس کو انگریزی میں epistemology کہا جاتا ہے۔
ماوراء الطبیعیات (Metaphysics) یہ عالم کے داخلی و غیر مادی امور سے بحث کرتی ہے۔ وجودیت، الہیات و کونیات اسکی ذیلی شاخیں ہیں۔ خدا، غایت، علت، وقت اور ممکنات اس کے موضوعات ہیں۔
اخلاقیات یا فلسفہ اخلاقفلسفہ کی ایک شاخ ہے، جس میں اخلاق یا اخلاقی قدروں بارے بحث کی جاتی ہے۔ اچھائی اور برائی، درست یا غلط، انصاف اور انسانی قدروں وغیرہ بارے مباحثے شامل ہیں۔
جمالیات فلسفہ کی ایک صنف جو فن کے حسن اور فن تنقید کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے۔فلسفہ کسی حقیقی *""[نظریے]"" کو کہتے ہیں جس میں تمام حقیقی *[زندگی] کے تصورات پر تبادلہ خیال کیاجاتا ہے
سائنس کا وجود شریعت کے بعد ہے اور شریعت اصل میں ان علوم کا منبع ہے جو مختلف ادوار میں انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو سکھائے۔
تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب فرمایا تو ان کی شریعت بجا طور پر گزشتہ تمام شریعتوں کا نچوڑ تھا۔ اسی وجہ سے حکم ہوا کہ آئندہ نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی شریعت مانی جائے گی۔ لہٰذا فلسفہ ، منطق ، علم الکلام وغیرہ کی بحث میں پڑنے کی بجائے شریعتِ محمدیؑ کے مطابق زندگی گزارنے اور صوفیانہ تعلیمات کے مطابق ایک پُرامن انسان ہونے کا ثبوت دینا ہی دنیا آخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔