(Translated by https://www.hiragana.jp/)
جھیل ملاوی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا مندرجات کا رخ کریں

جھیل ملاوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جھیل ملاوی کا خلا سے منظر

جھیل ملاوی (انگریزی: Lake Malawi)، جسے جھیل نیاسا (انگریزی: Lake Nyasa) بھی کہا جاتا ہے، عظیم وادی شق میں واقع افریقہ کی عظیم جھیلوں کے سلسلے کی سب سے جنوبی جھیل ہے۔ اسکاچستان کے معروف مہم جو ڈاکٹر ڈیوڈ لونگ اسٹون کے یہاں کے سفر کے باعث جھیل ملاوی کو کبھی کبھار انگریزی بولنے والے ممالک میں جھیل لونگ اسٹون بھی کہا جاتا ہے۔

یہ جھیل 560 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 75 کلومیٹر عریض ہے۔ اس کا کل رقبہ 29 ہزار 600 مربع کلومیٹر ہے۔ جھیل کی اوسط گہرائی 292 میٹر اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 706 میٹر ہے۔ جھیل سطح سمندر سے 500 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ جھیل ملاوی کی سرحدیں موزمبیق، ملاوی اور تنزانیہ سے ملتی ہیں۔ جھیل کا بیشتر حصہ ملاوی میں واقع ہے تاہم ملاوی اور تنزانیہ کے مابین علاقہ متنازع ہے۔ تنزانیہ کا دعویٰ ہے کہ جھیل کے اندر بین الاقوامی سرحد نو آبادیاتی دور میں 1914ء سے قبل کے جرمن اور برطانوی علاقوں کے مطابق ترتیب دی جائے۔ جبکہ ملاوی تنزانیہ کے ساحلوں کے بعد پوری جھیل پر دعویدار ہے جو 1919ء کی برطانوی انتظامیہ کے سنبھالنے کی بعد کی صورت حال ہے کیونکہ اس دور میں یہ پوری جھیل برطانوی نیاسالینڈ کا حصہ تھی۔ جھیل کا ایک چوتھائی حصہ موزمبیق کے پاس ہے۔

یورپیوں نے سب سے پہلے اس جھیل کو 1859ء میں دریافت کیا جب مشہور مہم جو اور مسیحی مبلغ ڈاکٹر ڈیوڈ لونگ اسٹون یہاں آئے تھے۔ نو آبادیاتی دور میں جھیل اور اس کے ارد گرد کا بیشتر علاقہ سلطنت برطانیہ کے زیر نگیں تھا جو نیاسالینڈ کہلاتا تھا۔ 1914ء میں اس جھیل میں ایک مختصر بحری جنگ ہوئی جس میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز کا اعلان سن کر ایک برطانوی جہاز نے جرمن جہاز کو ڈبو دیا تھا۔

جھیل ملاوی کو تنزانیہ میں جھیل نیاسا اور جھیل ملاوی جبکہ موزمبیق میں لاگو نیاسا کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم افریقی جھیلوں میں سے ایک ہے اور مشرقی افریقی شق کے انتہائی جنوبی سرے پر ملاوی، موزمبیق اور تنزانیہ کے درمیان واقع ہے۔

میٹھے پانی کی مقدار کے اعتبار سے یہ دنیا میں پانچویں بڑی، رقبے کے اعتبار سے 9ویں، افریقہ میں گہرائی کے اعتبار سے دوسری اور رقبے کے اعتبار سے تیسری بڑی جھیل ہے۔ جھیل ملاوی میں پائی جانے والی مچھلیوں کی انواع دنیا کی کسی بھی دوسری جھیل سے زیادہ ہیں۔ 10 جون 2011 کو موزمبیق کی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام حصے کو محفوظ قرار دیا جبکہ ملاوی میں واقع جھیل کا ایک حصہ جھیل ملاوی نیشنل پارک کا حصہ ہے۔

جھیل ملاوی میں پانی کی مختلف تہیں ایک دوسرے سے فرق رہتی ہیں۔ یہ فرق کیمیائی اور حرارتی ہوتے ہیں اور آکسیجن والی تہ کو بغیر آکسیجن والی تہ سے نہیں ملنے دیتے۔

جغرافیہ

[ترمیم]

جھیل ملاوی 560 تا 580 کلومیٹر طویل اور 75 کلومیٹر چوڑی جھیل ہے۔ اس کی سطح کا کل رقبہ 29،600 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی سب سے زیادہ گہرائی 706 میٹر دیکھی گئی جو اس کے وسط شمالی حصے میں واقع ایک نشیب کی ہے۔ انتہائی شمال میں واقع ایک اور نشیب کی گہرائی 528 میٹر ہے۔ جنوبی نصف کم گہرا ہے اور وسط جنوبی حصہ 400 میٹر اور انتہائی جنوبی حصہ 200 میٹر سے کم گہرے ہیں۔ جھیل کے مغربی ساحل پر موزمبیق، مشرقی ملاوی اور جنوبی تنزانیہ واقع ہیں۔ اس میں گرنے والا سب سے بڑا دریا روہوہو ہے اور جنوبی حصے سے ایک اور دریا شائر نکلتا ہے جو آگے چل کر موزمبیق کے بہت بڑے زمبیزی دریا میں گرتا ہے۔ جھیل سے خارج ہونے والے پانی کا 80 فیصد حصہ عملِ تبخیر سے ہوتا ہے۔ جھیل سے نکلنے والا شائر دریا پن بجلی، آب پاشی اور بہاؤ کے علاقے میں حیات کے تنوع کے لیے بہت اہم ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے جھیل ملاوی پر مستقبل میں ہونے والے اثرات پر بحث ہوتی ہے اور جھیل میں پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے اور جھیل کے خشک ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ جھیل کے علاقے کا موسم پہلے ہی تبدیل ہو رہا ہے اور اندازہ ہے کہ ملک کا درجہ حرارت محض بڑھتا ہی رہے گا۔

جھیل ملاوی افریقی وادئ شق کی ایک اور عظیم جھیل ٹانگانیکا سے 350 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔

جھیل ملاوی نیشنل پارک جھیل کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔

ارضیاتی تاریخ

[ترمیم]

جھیل ملاوی وادئ شق کی جھیل کی ایک بڑی اور کافی قدیم جھیل ہے۔ یہ جھیل مشرقی افریقی شق کے آغاز میں بنی جہاں افریقی ٹیکٹانک پلیٹ دو حصوں میں منقسم ہوئی۔ عام اندازہ ہے کہ یہ جھیل 10 سے 20 لاکھ سال پرانی ہے مگر نئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس کا پیندا 86 لاکھ سال قبل بننے لگا تھا اور 45 لاکھ سال قبل یہاں کافی پانی ہوا کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پانی کی سطح تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کبھی یہ موجودہ سطح سے 600 میٹر زیادہ تھی تو کبھی 10 تا 20 میٹر بلند۔ بعض اوقات یہ جھیل تقریباً خشک ہو گئی اور محض انتہائی گہرے حصوں میں انتہائی نمکین اور شورزدہ پانی کی چھوٹی جھیلیں بچ گئیں۔ پانی کی موجودہ کیمیائی شکل آج سے 60،000 سال قبل وجود میں آئی۔ جھیل میں پانی کی شدید کمی کے واقعات کے بارے اندازہ ہے کہ وہ آج سے 16 لاکھ تا 10 لاکھ سال قبل، 4،20،000 تا 2،50،000 سال قبل، 25،000 سال قبل اور پھر 18،000 تا 10،700 سال قبل پیش آئے۔1390 عیسوی تا 1860 عیسوی کے دوران پانی کی کمی اتنی تھی کہ جھیل موجودہ سطح سے 120 تا 150 میٹر کم رہی ہوگی۔

پانی کی خصوصیات

[ترمیم]

جھیل کا پانی اساسی نوعیت (پی ایچ 7ء7 تا 6ء8) کا ہے اور سطح کا درجہ حرارت 24 تا 29 درجے سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ گہرائی میں درجہ حرارت 22 درجہ رہتا ہے۔ 40 تا 100 میٹر کی گہرائی میں پانی کی مختلف تہیں ایک دوسرے سے الگ رہتی ہیں۔ 250 میٹر کی گہرائی پر آکیسجن ختم ہو جاتی ہے اور آکیسجن پر زندہ رہنے والی مچھلیاں اور دیگر جاندار بالائی حصے تک محدود رہتے ہیں۔ جھیل کا پانی بہت صاف ہوتا ہے اور 20 میٹر تک صاف دکھائی دیتا ہے مگر جھیل ملاوی میں یہ حد 10 میٹر سے بھی کم ہے اور گدلی خلیجوں میں محض 3 میٹر رہ جاتی ہے۔ جنوری تا مارچ دریاؤں سے بارش کے پانی کی آمد سے پانی اور بھی گدلا ہو جاتا ہے۔

یورپی دریافت اور آبادکاری

[ترمیم]

1846 میں پرتگالی تاجر کانڈیڈو ہوسے دا کوستا کارڈوسو یہاں پہنچنے والا پہلا یورپی تھا۔ 1859 میں ڈیوڈ لیونگسٹن نے جھیل کا چکر لگا کر اس کا نام جھیل نیاسا رکھا۔ اس نے جھیل کو دو اور بھی عرف دیے جو ستاروں کی جھیل اور طوفانوں کی جھیل تھے۔ ستاروں کی جھیل شاید اس وجہ سے کہا گیا ہو کہ مچھیرے اپنی کشتیوں میں لالٹین جلاتے تھے جو دور سے ستاروں کی مانند جھلملاتے دکھائی دیتے تھے۔ بعد میں جب اس نے یہاں طوفانی جھکڑ دیکھے تو اسے طوفانوں کی جھیل بھی کہا۔

16 اگست 1914 کو پہلی جنگ عظیم کے دوران جھیل پر موجود برطانوی جنگی جہاز کو حکم ملا کہ جھیل پر چلنے والے واحد جرمن جنگی جہاز کو ہرممکن نقصان پہنچایا جائے۔ برطانوی جنگی جہاز کے کپتان کو جرمن جنگی جہاز جرمن مقبوضہ علاقے میں دکھائی دیا اور برطانوی جنگی جہاز نے 1،800 میٹر کے فاصلے سے توپ کا ایک گولا چلا کر اس جہاز کو ناکارہ بنا دیا۔ برطانیہ میں دی ٹائمز نے پہلی جنگ عظیم میں اسے برطانیہ کی پہلی بحری کامیابی گردانا۔

حدیں

[ترمیم]

تنزانیہ–ملاوی تنازع

[ترمیم]

ملاوی اور تنزانیہ کے درمیان جھیل کی حدبندی پر تنازع ہے۔ تنزانیہ کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی سرحد جھیل کے وسط سے گزرتی ہے جبکہ ملاوی کا ماننا ہے کہ موزمبیق سے ہٹ کر جیھل کا تمام رقبہ بشمول تنزانیہ کے ساحل کے ساتھ موجود پانی بھی اس کی ملکیت ہیں۔ دونوں ملک 1890 کے ہیلی گولینڈ معاہدے کا حوالہ دیتے ہیں جو جرمنی اور برطانیہ کے درمیان ہوا تھا۔ برطانیہ نے جب جرمنی سے ٹانگانیکا کو چھینا تو اس سارے علاقے کو نیازی لینڈ کی ریاست قرار دے کر ان پر ایک منتظم مقرر کیا۔ بعد ازاں نوآبادیاتی دور میں دو الگ علاقے بنائے گئے۔

1967 میں تنزانیہ نے ملاوی سے باقاعدہ احتجاج کیا مگر تنازع ختم نہ ہو سکا۔ 1990 کی دہائی اور 21ویں صدی کے اوائل تک جھڑپیں جاری رہیں۔ 2012 میں ملاوی نے تیل کی تلاش کا کام شروع کیا تو تنزانیہ نے اس معاملے کو تنازعے کے حل تک مؤخر کرنے کا کہا۔

ملاوی–موزمبیق سرحد

[ترمیم]

1954 میں برطانیہ اور پرتگال کے درمیان معاہدہ ہوا کہ جھیل کے وسط سے حد گذرے گی مگر چیزومولو اور لیکوما جزائر اس معاہدے سے باہر اور برطانیہ کی ملکیت ہوں گے۔ یہ جزائر اب ملاوی کا حصہ ہیں۔

نقل و حمل

[ترمیم]

1901 میں ایم وی چانسی میپلز نے اپنا نام بدل کر ایس ایس چانسی میپلز رکھ کر کام شروع کیا۔ اس جہاز پر ایک طبی مرکز اور چرچ تھا جو وسطی افریقہ کی جانب یونیورسٹیوں کا مشن تھا۔ بعد میں اس نے مسافر بردار جہاز کا کام شروع کیا اور اب خلیج منکی پر اسے طبی مرکز بنایا جا رہا ہے۔ اندازہ تھا کہ یہ تبدیلی 2014 میں مکمل ہو جائے گی مگر 2017 میں اس پر کام روک دیا گیا۔ ایم وی مپاسا نے 1935 میں کام شروع کیا۔ مسافر بردار کشتی ایم وی ایلالا نے 1951 میں کام شروع کیا مگر اس وقت فعال نہیں۔ یہ جہاز جنوبی سرے پر خلیج منکی سے شمال میں کاروں گا کو چلتی تھی۔ ایک اور کشتی ایم وی مٹینڈیری 1980 میں کام کرنے لگی۔ 1982 میں یہ کشتی سالانہ ایک لاکھ مسافروں کو منزل تک پہنچاتی تھی۔ اس کشتی نئے 2014 میں کام روکا۔ تنزانیہ کا جہاز ایم وی سونگیا 1988 میں تعمیر ہوا اور اسے تنزانیہ کی ریلوے کارپوریشن 1997 تک چلاتی رہی اور پھر اس کمپنی کا نام بدل کر میرین سروس کمپنی لمیٹڈ رکھا گیا۔ یہ کشتی ہر ہفتے چلتی ہے۔ 1946 میں ایم وی وائیپیا کشتی کے حادثے میں 145 اموات ہوئیں جو کسی جھیل پر ہونے والا بدترین حادثہ تھا۔

جنگلی حیات

[ترمیم]

جھیل ملاوی اور اس کے اردگرد نیل مگرمچھ، دریائی گھوڑے، بندر اور افریقی ماہی خور عقاب پائے جاتے ہیں۔

مچھلی

[ترمیم]

ماہی گیری

[ترمیم]

جھیل ملاوی اپنے ساحلوں پر رہنے والے افراد کے لیے ہزار سال سے خوراک کا اہم ذریعہ رہی ہے کہ اس میں مچھلیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ مشہور ترین مچھلیوں میں چامبو، سارڈین اور کمپانگو کیٹ فش ہیں۔ زیادہ تر مچھلیاں مقامی آبادی کا پیٹ بھرتی ہیں مگر کچھ مقدار ملاوی کے ذریعے برآمد بھی کی جاتی ہے۔ آبی آلودگی اور ضرورت سے زیادہ شکار سے مچھلیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پانی کی کم ہوتی سطح بھی ایک خطرہ ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی اپنے استعمال کے لیے بتدریج زیادہ پانی نکال رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور جنگلات کا کٹاؤ بھی اہم وجوہات ہیں۔

غیر فقاریہ

[ترمیم]

سیپیاں اور گھونگھے

[ترمیم]

جھیل ملاوی میں 28 انواع کے گھونگھے اور 9 انواع کی سیپیاں پائی جاتی ہیں۔

قشریات

[ترمیم]

جھیل ملاوی میں قشریات کی کافی کم تعداد ملتی ہے۔ ملاوی کا نیلا کیکڑا اس جھیل میں پایا جانے والا کیکڑے کی نسل کا واحد نمائندہ ہے اور یہ بھی مقامی نہیں۔ یہاں چند اقسام کے زوپلانکٹن بھی ملتے ہیں۔

جھیل کی مکھیاں

[ترمیم]

جھیل ملاوی انتہائی چھوٹی اور بے ضرر مکھیوں کے بہت بڑے جھنڈوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ دور سے انھیں دیکھا جائے تو جیسے دھواں اٹھ رہا ہو۔ ڈیوڈ لیونگسٹن نے بھی اس کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان مکھیوں کے لاروے زوپلانکٹن کو کھاتے ہیں اور دن کو تہ میں جبکہ رات کو اوپری پانیوں میں آ جاتے ہیں۔ جب یہ اپنی شکل بدل کر پیپا بنتے ہیں تو سطح پر پہنچ کر پھر مکھی بن جاتے ہیں۔ بالغ مکھیوں کی عمر مختصر ہوتی ہے مگر ان کے جھنڈ کئی سو میٹر اونچے اور بل کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ رویہ افزائش نسل کے لیے جوڑے کی تلاش کے دوران ہوتا ہے۔ جنسی ملاپ کے بعد جھیل کی سطح پر انڈے دے کر بالغ مکھیاں مر جاتی ہیں۔ ان مکھیوں کے لاروے مچھلیوں کی خوراک کا اہم ذریعہ ہیں اور بالغ مکھیوں کو مقامی باشندے اور پرندے بھی کھاتے ہیں۔

2015 کا کان کا حادثہ

[ترمیم]

جنوری 2015 میں یورینیم کی کان پر بنا پالاڈین انرجی کا ملکیتی گاد کا ٹینک شمالی ملاوی میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ اندازہ ہے کہ کم از کم 50 لیٹر غیرتابکار مواد قریبی کھاڑی میں بہہ گیا۔ تابکار مواد کی افواہوں کے باوجود حکومت نے مقامی دریاؤں میں غیر جانبدار سائنسی تجزیے کرائے اور ثابت کیا کہ ماحول کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

تیراکی

[ترمیم]

16 تیراکوں نے 5 مواقع پر جھیل ملاوی میں راس نگومبا اور خلیج سینگا کے درمیان 25 کلومیٹر طویل فاصلہ تیر کر عبور کیا:

1992 میں امریکی/برطانوی لیوش پو نے 9 گھنٹے 52 منٹ اور جنوبی افریقی اوٹو تھینگ نے 10 گھنٹے اور 5 منٹ لگائے

2010 میں برطانوی ایبی گیل نے 9 گھنٹے 45 منٹ لگائے

2013 میں ولندیزی میلکو وان گول نے 8 گھنٹے 46 لگائے جبکہ امریکی کیٹلین ہارتھورن نے 9 گھنٹے 17 منٹ لگائے

2016 میں جنوبی افریقی جین کراون، کینیا کے رابرٹ ڈنفورڈ، جنوبی افریقی میشیل لی روکس، جنوبی افریقی سمانتھا ویلپٹن، جنوبی افریقی گریگ بنایٹین، جنوبی افریقی ہیڈن ون مالٹیٹز اور جنوبی افریقی ڈوگلس لیونگسٹن بیلوینز نے 7 گھنٹے 53 منٹ لگائے جو موجودہ ریکارڈ ہے

2019 میں ایسواتینی کے کرس سٹیپلی اور جنوبی افریقی جے ازرن نے 8 گھنٹے 40 منٹ، آسٹریلوی اینڈریو سٹیونز نے 10 گھنٹے 50 منٹ اور جنوبی افریقی روتھ ازرن نے 11 گھنٹے 8 منٹ لگائے

2019 میں پہلی مرتبہ جنوبی افریقی مارٹن ہوبز نے پوری جھیل کو 54 دن میں تیر کر عبور کیا اور جھیل میں طویل ترین تنہا تیراکی کا ریکارڈ بنایا