(Translated by https://www.hiragana.jp/)
کھیتوں سے سرکاری دفتر تک، کولہی خاتون کی طبقاتی فرق کے خلاف جدوجہد کی کہانی - Opinions - Dawn News Urdu
  • KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:44am
  • LHR: Fajr 5:01am Sunrise 6:24am
  • ISB: Fajr 5:08am Sunrise 6:33am
  • KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:44am
  • LHR: Fajr 5:01am Sunrise 6:24am
  • ISB: Fajr 5:08am Sunrise 6:33am

کھیتوں سے سرکاری دفتر تک، کولہی خاتون کی طبقاتی فرق کے خلاف جدوجہد کی کہانی

'مجھے بچپن سے ہی یہ سوال بہت تکلیف دیتا تھا کہ ہم آخر کب تک ایسے ہی کسی کے غلام بن کر رہیں گے، کیا ہم اسی لیے پیدا ہوئے ہیں اور اسی طرح مرجائیں گے؟'
شائع October 2, 2024

اپنی آبادی کی رنگا رنگی کے باعث صوبہ سندھ ایک متنوع خطہ ہے۔ صوفیانہ اقدار، رواداری، امن و برداشت پر مبنی رویے ہی اس تنوع کو برقرار رکھتے ہیں۔

پاکستان کی اقلیتوں میں سب سے زیادہ ہندو ہیں جن کی اکثریت صدیوں سے یہیں بسی ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق سندھ کی کُل ساڑھے 5 کروڑ سے زائد آبادی میں اقلیتوں کی مجموعی تعداد 55 لاکھ 11 ہزار 981 ہے جبکہ صحرائے تھر کے اضلاع میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے اور ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی اکثریت ہے جن میں کولہی، بھیل، مینگھواڑ، باگڑی، اوڈ اور دیگر شامل ہیں۔

ہندو مت میں رائج ذات پات کے نظام میں انہیں نچلی ذات مان کر اچھوت اور دلت کہا جاتا ہے۔

پاکستان کے آئین میں انہیں شیڈول کاسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ مذہبی اور سماجی استحصال کا شکار، سندھ کی شیڈول کاسٹ صوبے کی غریب ترین آبادی ہے جو صحت، تعلیم روزگار سمیت ہر طرح کی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں کولہی طبقے کی ایک نوجوان خاتون اپنی جدوجہد کی کہانی ہمیں بتاتی ہیں کہ غیر مسلم برادری خصوصاً شیڈول کاسٹ کو کس طرح سماج میں دہرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


طبقاتی فرق کے خلاف جدوجہد کی کہانی


نرما چوہان اپنی برادری کی ہزاروں خواتین کی طرح گھونگٹ کاڑھے کھیتوں میں کام نہیں کرتیں نہ ہی وہ کسی زمین دار یا وڈیرے کی ’چاکری‘ پر مامور ہیں، ان کے پاس تعلیم کی طاقت ہے جس نے انہیں خود مختار بنایا ہے۔

  نرما چوہان کا تعلق کولہی برادری سے ہے
نرما چوہان کا تعلق کولہی برادری سے ہے

نرما چوہان ہندو کولہی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ سندھ کی ایک انٹرنیشنل اسلامک آرگنائزیشن میں بہ حیثیت اسسٹنٹ ہیومن ریسورسز افسر کام کررہی ہیں۔ ایک اسلامی ادارے میں ان کی تقرری جہاں سندھ کے سماج میں رواداری کے عنصر کی عکاس ہے وہیں ذات پات کی بنیاد پر رائج تعصبات کے خلاف ایک مثالی جدوجہد بھی ہے۔ نرما نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن (BBA) کیا اور اب ہیومن ریسورسز میں ماسٹرز کررہی ہیں۔ محض 24 سال کی عمر میں نرما نے نہ صرف اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کی ہے بلکہ وہ اپنے قبیلے کی دیگر لڑکیوں کے لیے بھی راستے کے کانٹے چن رہی ہیں۔

نرما چوہان تھرپارکر کے ایک چھوٹے سے گاؤں پاؤر یاڑی میں ایک کولہی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ہوش سنبھالا تو اپنے خاندان کو کھیتی باڑی کرتے دیکھا۔ ان کی والدہ صبح سویرے اُٹھ کر کھیتوں میں کام کرنے چلی جاتیں جہاں وہ اور خاندان کی دیگر خواتین فصلوں کی بوائی اور چنائی کرتی تھیں۔ شام کو گھر آتیں تو اپنے پلو سے بندھے معاوضے کے چند روپے نکال کر شوہر کو تھما دیتیں جبکہ بعض اوقات وہ خالی ہاتھ لوٹتی تھیں کیونکہ خاندان کے اخراجات کے لیے زمین دار سے رقم پہلے ہی ایڈوانس میں لے لی جاتی تھی۔

بہت ممکن تھا نرما بھی کم عمری میں اپنی والدہ کے ساتھ کھیتوں میں محنت مزدوری کرتیں اور اسی طرح زندگی گزار دیتیں جیسے کہ اس برادری کی لاکھوں خواتین گزارتی ہیں لیکن نرما چوہان کے والد نے ایک نئی راہ اپنائی اور ان کے خاندان کی سمت بدل گئی۔ نرما کے والد نے انٹر تک تعلیم حاصل کی اور کسان کی بجائے سیلز مین بن گئے۔ وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں خاندان کو لے کر کنری شہر آگئے۔ نرما کا بچپن یہیں گزرا۔ چار بہنوں اور دو بھائیوں کے خاندان میں وہ سب سے بڑی ہیں۔


غلامی کی زندگی


نرما کو ’طبقاتی کرب‘ کا بچپن سے احساس ہونے لگا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’کولہی برادری میں پیدا ہونے کا مطلب، غلامی کی زندگی جینا ہے۔ میرے دادا جی اور ان کے بھی ’بڑے بوڑھے‘ ہمیشہ سے کسی وڈیرے کے غلام رہے ہیں۔ ہمارا ہاری طبقہ ہے جو وڈیروں کی زمینوں پر اناج اُگاتا ہے، محنت مزدوری کرتا ہے۔ سندھ کے 60 فیصد ہاری کولہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

  گاؤں میں کھیتوں میں کام کرتی کولہی خواتین—تصویر: وکی میڈیا
گاؤں میں کھیتوں میں کام کرتی کولہی خواتین—تصویر: وکی میڈیا

’ہمارے لوگ دن رات محنت کرکے اناج اُگاتے ہیں لیکن کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں ملتا۔ کم اجرت کی وجہ سے وہ ہمیشہ زمین دار/وڈیرے کے مقروض رہتے ہیں کیونکہ جب تک قرض نہ اترے وہ ’مالک‘ کا کام نہیں چھوڑ سکتے۔ اس طرح قرض نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ’مالک‘ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کسی ہاری پر وڈیرے کا بہت زیادہ قرض ہے جیسے 8 یا 10 لاکھ روپے جو وہ کسی صورت واپس نہیں کرپارہا تو کوئی اور وڈیرا جسے ہاری کی ضرورت ہو وہ یہ رقم ادا کرکے اس کے عوض ہاری کو لے لیتا ہے۔ اب کھیتوں کے کام سے لے کر ذاتی کام تک نیا ’مالک‘ جو چاہے اس ہاری سے کروا سکتا ہے‘۔


’ہماری قسمت کے فیصلے کوئی اور کرتا ہے ’


نرما کہتی ہیں کہ ’میں بچپن سے دیکھتی آئی ہوں کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی مسئلہ ہو ہمارے لوگوں سے رائے نہیں لی جاتی تھی۔ وہ کسی کا ذاتی معاملہ ہو یا برادری کا فیصلہ ہمیشہ ہماری برادری سے باہر کا ’بڑا‘ خواہ وہ کوئی مسلمان ہو یا ہمارے مذہب کا، ہمارے فیصلے ہمیشہ وہی کررہا ہوتا تھا کیونکہ ہم اس کے ہاری ہیں اور اس حیثیت میں ہمیں اپنی آواز اٹھانے کا یا پھر خود کے لیے بولنے کا کوئی حق نہیں‘۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’مجھے کم عمری سے ہی یہ سوالات بہت تکلیف دیتے تھے کہ ہم کب تک ایسے ہی کسی کے غلام بن کر رہیں گے یا یہ کہ ہم کیا صرف کھیتی باڑی کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ہم ہاری کے بچے پیدا ہوئے ہیں تو کیا ہم ہاری کے بچے کی حیثیت سے ہی مر جائیں گے؟‘


کولہی عورت، گھونگٹ، چوڑا اور محنت


سندھ کے دیہات میں زیادہ تر کولہی خواتین سر جھکائے فصلوں کی بوائی یا چنائی کرتے ہوئے کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے چہرے لمبے گھونگٹ میں چھپے ہوتے ہیں اور تیزی سے کام کرتے ہوئے ہاتھوں میں کلائی سے لے کر بازوؤں تک ’چوڑا‘ بھرا نظر آتا ہے۔

  گاؤں میں کولہی خواتین محنت مزدوری کرتی ہیں—تصویر: گوگل
گاؤں میں کولہی خواتین محنت مزدوری کرتی ہیں—تصویر: گوگل

نرما چوہان کی چچی تائی اور خاندان کی دیگر خواتین اسی روایت پر کار بند ہیں۔ نرما ان کے متعلق کہتی ہیں کہ ’ہماری ہاری خواتین بہت مضبوط ہیں۔ آپ عام خواتین سے ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہیں روزگار کے لیے مردوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہماری خواتین مال مویشی کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں، کھیتی باڑی کرتی ہیں جبکہ اسی دوران وہ بچے پیدا کرکے انہیں پال بھی رہی ہوتی ہیں۔ وہ گاؤں میں اپنے ’چونرے‘ (تھر میں گھانس پھونس سے بنائے گئے گھر) کی لیپا پوتی بھی کرتی ہیں تاکہ ان کے خاندان کے لیے سر چھپانے کا ٹھکانہ برقرار رہے۔ ہاری خواتین اپنے مردوں کے شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ ان سے کئی گنا زیادہ کام کرتی ہیں‘۔

اپنی برادری کی خواتین کے حوالے سے نرما بتاتی ہیں، ’کولہی خواتین کو اپنے روایتی لباس کے علاوہ کچھ اور پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تھر کی آگ برساتی گرمی میں بھی وہ یہ روایتی لباس پہنے کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ شادی شدہ ہیں، وہ ہاتھوں میں ’چوڑا‘ پہنتی ہیں اور خواہ وہ نوجوان ہوں یا بوڑھی گھونگٹ کی اوٹ میں رہتی ہیں جسے روایتی طور پر کولہی عورت کی پہچان قرار دیا گیا ہے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کولہی عورتوں کے لیے پردے کا تصور خطے کی ثقافت کی وجہ سے رائج ہوا ورنہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب ’بھگوت گیتا‘ میں پردے کا ذکر نہیں ملتا۔ کولہی عورتیں اپنے بزرگوں اور مردوں کی عزت کے لیے گھونگٹ کی اوٹ میں رہتی ہیں۔ ہوسکتا ہے جیسے کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہمارے خود کے مرد بھی ہمارے متعلق فیصلے نہیں کر رہے ہوتے تو عورتوں کے گھونگٹ کا فیصلہ بھی تاریخی طور پر علاقے کے وڈیروں، میروں یا پیروں نے کیے ہوں گے‘۔

  ’ہماری خواتین کے گھونگٹ لینے کے فیصلے بھی وڈیروں نے کیے ہوں گے‘—تصویر: لکھاری
’ہماری خواتین کے گھونگٹ لینے کے فیصلے بھی وڈیروں نے کیے ہوں گے‘—تصویر: لکھاری


اسلامی ادارے میں افسر کا عہدہ


نرما چوہان انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ کے ادارے سے وابستہ ہیں جس کا وہ نام بتانا نہیں چاہتیں۔ وہ یہاں اسسٹنٹ ہیومن ریسورس افسر کی حیثیت میں کام کرتی ہیں۔ انہیں یہ ملازمت اپنی تعلیم اور صلاحیت کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔

نرما نے اپنے کام کی نوعیت کے متعلق بتایا کہ ان کا ادارہ ایک انٹرنیشنل این جی او ہے جو مصیبت کا شکار افراد کی مدد کرتا ہے جیسا کہ 2021ء میں سیلاب آیا تھا یا پھر حالیہ بارشوں کے بعد جو خراب صورت حال ہے اس میں لوگوں کو راشن اور دیگر امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ادارہ لوگوں کو گرانٹس بھی دیتا ہے جس سے وہ کاروبار کرسکیں۔ ان کے ادارے کو بیرون ملک سے فنڈنگ بھی حاصل ہوتی ہے۔

نرما کہتی ہیں کہ ان کا اس مقام تک پہنچنے کا سفر بہت لمبا اور جدوجہد سے بھرپور تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’جب میں بہت چھوٹی تھی تو گاؤں میں اکا دکا بچیوں کو اسکول جاتے دیکھ کر والدین سے کہتی تھی کہ میں بھی اسکول جاؤں گی۔ میری والدہ میرے شوق کے اظہار پر خاموش رہتی تھیں۔ شاید وہ مجھے اسکول کی بجائے اپنے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے دیکھتی تھیں لیکن والد میرے شوق کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ انہوں نے برادری کی روایات کے برعکس خود کسی نہ کسی طرح انٹر تک تعلیم حاصل کرلی تھی اور اب وہ اپنی اولاد کے لیے اعلیٰ تعلیم کا سپنا دیکھ رہے تھے‘۔

  ’میرا اس مقام تک پہنچنے کا سفر بہت طویل ہے‘—تصویر: نرما چوہان
’میرا اس مقام تک پہنچنے کا سفر بہت طویل ہے‘—تصویر: نرما چوہان


’والد کا سپنا پورا ہوا‘


نرما بتاتی ہیں، ’جب ہم چھوٹے تھے تو میرے والد ملازمت کے سلسلے میں کھپرو آ گئے۔ میری ابتدائی تعلیم یہیں سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد والد کنری اور یہاں سے میرپور خاص شفٹ ہوئے۔ یہاں میری تعلیم باقاعدگی سے ہوئی۔ میرپور خاص کے ایک انگلش اسکول سے میں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ یہ بھی آسان کام نہیں تھا۔

’برادری کے لوگوں کو معلوم ہوتا کہ میں اسکول جارہی ہوں تو سب والدین کو ملامت کرتے کہ بیٹی کو اسکول کیوں بھیج رہے ہو۔ مالی مسائل الگ تھے۔ پرائمری کلاس میں مجھے ٹیوشن کی ضرورت تھی۔ 100 روپے فیس تھی میں نے ٹیوشن فیس ادا کرنے کے لیے خود کے۔جی کلاس کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردی۔

’پرائمری کے بعد جب میں نے مزید پڑھنا چاہا تو خاندان میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ میرے دادا، چچا سب والد پر زور دے رہے تھے کہ بچی کو گھر بٹھاؤ ورنہ یہ پڑھ لکھ کر تمہارے لیے بد نامی کا باعث بنے گی۔ خاندان کی بڑی بوڑھیاں والدہ کو سمجھاتی تھیں کہ پانچ جماعت پڑھ لیں، بہت ہوگیا، اب اسے گھرداری اور سلائی کڑھائی سکھاؤ! پڑھا لکھا کر کیا اسے برادری سے باہر کروگی۔ ممکن ہے میرے والدین خاندان کے دباؤ میں آ جاتے مگر میں نے اس عمر میں اپنے لیے کھڑا ہونا سیکھ لیا تھا۔

’میں نے ضد کی، کھانا پینا چھوڑ دیا کہ مجھے آگے پڑھنا ہے تو اس کے بعد ہوا یہ کہ والد نے مجھے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو گورنمنٹ گرلز اسکول میں داخلہ دلوادیا۔ وہاں سے میں نے میٹرک کیا۔ انٹر میں داخلے کے وقت پھر خاندان اور برادری کے لوگ آڑے آئے، کہتے تھے، ’یہ اب جوان ہوگئی ہے اس کی شادی کرنی ہے یا نہیں؟، ہماری برادری میں لڑکیوں کو کون پڑھاتا ہے یہاں تو لڑکے بھی پڑھے لکھے نہیں ہیں، اس کی شادی کس سے کرو گے؟‘ مگر میرے والدین نے میرا ساتھ دیا اور میں نے میرپور خاص کے ابن رشد گرلز کالج سے انٹر کرلیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی جانے کا مرحلہ آیا تو اسی طرح برادری کی مخالفت میں لڑتے بھڑتے سندھ یونیورسٹی جا پہنچی‘۔

  ’تعلیم حاصل کرنا لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ لڑکوں کا‘—تصویر: یونیسیف
’تعلیم حاصل کرنا لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ لڑکوں کا‘—تصویر: یونیسیف

نرما کہتی ہیں کہ ’یونیورسٹی تک پہنچتے ہوئے مجھ میں بہت شعور آگیا تھا۔ مجھے علم ہوگیا کہ بہ حیثیت انسان میرے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ تعلیم میرا بھی اسی طرح حق ہے جیسے کسی لڑکے کا۔ میں نے یونیورسٹی میں اپنے چار سال مکمل کیے۔

’سندھ یونیورسٹی کا میرپور خاص میں بھی کیمپس ہے جہاں سے میں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کیا۔ یونیورسٹی لائف بہت مشکل رہی۔ ایک تو مالی مسائل تھے، روزانہ یونیورسٹی آنا جانا اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے میں ٹیوشن پڑھاتی اور جُز وقتی ملازمت کرتی رہی۔ دوسری جانب شعور آیا تو طبقاتی امتیاز کا احساس بھی شدید تر ہوتا گیا‘۔


’یہ تو کولہی ہے‘، ایک دل شکن جملہ


نرما چوہان بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران وہ طبقاتی تفریق کی وجہ سے بہت زیادہ احساس کمتری میں مبتلا رہیں۔ کہتی ہیں، ’ایک احساس محرومی تو مالی وسائل نہ ہونے کا تھا جبکہ میں دیکھتی تھی میرے اردگرد زیادہ تر طالب علم خوش حال خاندانوں سے تھے اس کے ساتھ طبقاتی فرق بھی نمایاں ہوا۔ میں کولہی ذات سے ہوں جو ہندوؤں میں نچلا طبقہ گردانا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے دھرم میں اونچی ذات کے لوگ ہمیشہ نیچا دکھاتے ہیں۔ حقارت سے پیش آتے ہیں اور باور کرواتے ہیں کہ ہم ان کے مقابلے میں کمتر ہیں۔ یونیورسٹی میں آئی تو پوری کلاس میں واحد ہندو لڑکی میں ہی تھی۔

’کئی مرتبہ لوگ دانستہ یا نا دانستہ طور پر مذہبی بنا پر حقارت آمیز رویہ اختیار کرتے تھے۔ ’یہ تو کولہی ہے‘، یہ جملہ اس انداز میں سننے کو ملتا ہے کہ دل چیر کر رکھ دیتا ہے‘۔ نرما نے یہ بات بھرائی ہوئی آواز میں کہی تاہم اگلے ہی لمحے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’بہرحال جہاں لوگ تنگ کرنے والے ہوتے ہیں وہاں خیال رکھنے والے بھی ہوتے ہیں کیونکہ اچھے برے لوگ آپ کو ہر جگہ ملتے ہیں۔ میری زیادہ تر دوست مسلم ہیں اور انہوں نے مجھے کبھی کسی تفریق کا احساس نہیں ہونے دیا اور ہر موقع پر میرے ساتھ رہی ہیں۔

  ’بچے مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے‘—تصویر: میٹا اے آئی
’بچے مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے‘—تصویر: میٹا اے آئی

’اس کے علاوہ میں اپنے ٹیچر سر اکرم علی میمن کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گی۔ انہوں نے مجھے سیکنڈ ایئر سے پڑھانا شروع کیا اور نوٹ کیا کہ یہ بچی چپ چپ رہتی ہے۔ پڑھائی میں ایوریج رہتی ہے، لیکن وہ میرے اندر چھپی صلاحیت کو پہچان گئے تھے۔ انہوں نے ہر چھوٹی چھوٹی بات پر میری حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی اور وہ مجھے بولنے کا موقع دیتے۔ مجھے ذمہ داری سونپتے تھے۔ غرض انہوں نے مجھے اپنی ذات پر اعتماد کرنا سکھایا جس کی وجہ سے میں آج خود کو بلند ہمت محسوس کرتی ہوں اور کہیں بھی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتی۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ کولہی ہونے سے پہلے میں ایک انسان ہوں‘۔


’جبری شادی سنی ہے، دیکھی نہیں‘


دیہی سندھ میں لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی اور جبری شادی کے واقعات کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے، اس حوالے سے ہم نے نرما سے بات کی جس پر انہوں نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادیاں کی جاتی ہیں۔ چونکہ میں دو سماجی آرگنائزیشنز کے ساتھ رضاکارانہ طور پر بھی کام کرتی ہوں تو وہاں ان معاملات کے بارے میں اکثر بات ہورہی ہوتی ہے۔

’جب وہاں اس طرح کے کیسز آتے ہیں اور وہاں تحقیقات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جبری مذہب تبدیلی معاشرے میں موجود ہے اور 80 فیصد اقلیت کی بچیوں کے ساتھ ایسا ہورہا ہوتا ہے‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے کسی جاننے والے میں کوئی ایسا واقعہ ہوا، نرما نے جواب دیا کہ ذاتی طور پر ان کے مشاہدے میں ایسا کیس نہیں آیا البتہ اس کے بارے میں سنا بہت جاتا ہے۔


’مخالف اب پیروکار بن گئے‘


نرما چوہان نے بتایا کہ انہوں نے گھر میں اپنی تعلیم کے لیے جس طرح جدوجہد کی اور ڈگری حاصل کرکے سرخرو ہوئیں، اس سے ان کے قبیلے کی دیگر لڑکیوں کے لیے بھی راستے کھل گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’میری ایک بہن نے میرپورخاص سول ہاسپٹل سے لیڈی ہیلتھ وزیٹر کا کورس کیا ہے۔ دو بہنیں نرسنگ کررہی ہیں۔ خاندان میں میرے چچا تایا ماموں وغیرہ جو میرے والدین کو مجھے تعلیم دلوانے پر طعنے دیتے تھے، بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے، وہ اب نہ صرف اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہے ہیں بلکہ ملازمت بھی کروارہے ہیں۔ میرے ایک چچا کی بیٹی ٹیچنگ کررہی ہے جبکہ اب این جی او سیکٹر میں بھی ہماری بچیاں کام کر رہی ہیں‘۔


’سیاست سے مایوس‘


  نرما چوہان سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں
نرما چوہان سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں

صحرائے تھر سے تعلق رکھنے والی ہندو برادری کی کرشنا کولہی سینیٹر منتخب ہوئیں تو کولہی برادری سرخیوں میں نمایاں رہی، کیا انہیں دیکھتے ہوئے برادری کی لڑکیاں سیاست میں آنے کے لیے متحرک ہورہی ہیں؟ اس سوال پر نرما نے جواب دیا کہ ’کرشنا کولہی حقیقتاً ہمارے طبقے کے لیے ایک قابلِ فخر اور مثالی خاتون ہیں، تاہم مجھے ذاتی طور پر سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں۔

’میں آج تک ووٹ ڈالنے بھی نہیں گئی کیونکہ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیں اپنے نمائندے خود چننے کا اختیار نہیں۔ ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں جو نمائندہ بھی آتا ہے اس کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں لیکن یہ باتیں صرف ووٹ لینے سے پہلے تک محدود ہوتی ہیں۔ جب ووٹ مل جاتے ہیں اس کے بعد ان کا عوام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا‘۔


’برادری سے باہر شادی، ہر گز نہیں‘


نرما کہتی ہیں کہ ’کولہی کمیونٹی میں یہاں تک کسی کی سوچ ہی نہیں جاتی کہ وہ برادری سے باہر شادی کرے۔ شروع سے ہمارے ذہنوں میں ڈال دیا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی کا یہ راستہ ہے، آپ نے اس راستے پر جانا ہے، اس طریقے سے چلنا ہے اور اسی راستے پر آپ نے ختم ہو جانا ہے‘۔

کولہی کمیونٹی میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں، انہیں اپنی برادری میں برابر کا جوڑ نہ مل سکے تو اس صورت میں کیا ہوتا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’برادری میں پڑھے لکھے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، انہیں اپنے سے کم تعلیم یافتہ پارٹنر پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور کبھی کسی کو برابر کا پڑھا لکھا ساتھی مل بھی جاتا ہے۔

’عموماً تو ہماری کمیونٹی بلکہ مسلم یا غیر مسلم سب میں بہت کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ دیہی سندھ میں 18 سال سے کم عمر کی شادی ہوجانا اور 19 یا 20 سال کی عمر میں بچے ہو جانا معمول ہے‘۔

نرما بتاتی ہیں کہ قبیلے سے باہر شادی کا معاملہ اگر لڑکے سے متعلق ہو تو ہمارے بزرگ برداشت کرلیتے ہیں یعنی کسی اور کمیونٹی کی ’بہو‘ کو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن کولہی لڑکی اگر ایسا قدم اٹھا لے تو اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسے ذہنی، جسمانی، روحانی ہر طرح کی اذیت پہنچائی جاتی ہے۔

  ہماری برادری میں لڑکیوں کی برادری سے باہر شادی کو غلط سمجھا جاتا ہے
ہماری برادری میں لڑکیوں کی برادری سے باہر شادی کو غلط سمجھا جاتا ہے


قطرے سے دریا تک کا سفر


نرما چوہان نے اپنے قبیلے کے طے کردہ راستوں سے ہٹ کر اپنے لیے زندگی کی سمت متعین کی ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی میں بچیوں، خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے متعلق آگاہی کو فروغ دے رہی ہیں۔ تاہم انہیں محسوس ہوتا کہ حالات تبدیل ہونے میں بہت وقت درکار ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’میرے بابا کو میری تعلیم کی خاطر اپنے خاندان سے بہت کچھ سننے کو ملا۔ انہیں کہا گیا کہ یہ لڑکی برادری کا نام ڈبو دے گی لیکن بابا میرے حق کے لیے کھڑے ہوئے۔ وہ میرے ذریعے اپنا خواب پورا کرنا چاہتے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے لیکچرار بننا چاہتے تھے لیکن میرے دادا ہاری تھے اور ان کے وسائل نہیں تھے کہ بابا کو تعلیم دلوا سکیں مگر میرے والد نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی ہے۔

’اس طرح کی مثالیں ہمارے سماج میں کم ہیں، میرے جیسے لوگ بہت چھوٹی سطح پر آگاہی کے فروغ کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہ پانی کے قطرے ہیں جو مسلسل گریں گے تو زمین نم ہوگی‘۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔